Ticker

Advertisement

Responsive Advertisement

”ڈاکٹر نے جب مجھے کپڑے اتارنے کو کہا ، ایک لڑکی کی داستان“

 


”ڈاکٹر نے جب مجھے کپڑے اتارنے کو کہا ، ایک لڑکی کی داستان“



ڈاکٹر نے جب مجھے کپڑے اتارنے کو کہا ، ایک لڑکی کی داستان ، ایک ہفتہ قبل میں کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں کمر کی تکلیف کے چیک اپ کے لیےگئی۔۔۔ میری ماں بھی میرے ساتھ ڈاکٹر کے دفتر میں گئیں لیکن معائنہ کرنے والے روم میں نہیں گئیں۔

یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ۔۔ کمرے میں صرف دو آدمی تھےایک نرس اور ایک میں خود۔۔۔میری تکلیف کی نوعیت اس بات کی متقاضی تھی کہ میں اپنی شلوار اتار کر ڈاکٹر اور نرس کو معائنہ کرنے کی ۔۔ اجازت دو نرس نے مجھےایک کرتہ دیااور معائنہ کے لیے کمرہ تیار کرنے کے بعد ڈاکٹر کو بلا لیا۔۔۔ ڈاکٹر نے میری کمر کوایک نظر دیکھ کر مجھ سے تکلیف کے بارے میں پوچھا ۔۔ میں نے بتایا کہ سرجری کے بعد مجھے کمرکے نچلے حصے میں درد رہتی ہے۔۔۔ اس نے میری کمر دبائی اور مجھ سے پوچھا کے دبانی سے کوئی اثر محسوس ہورہا ہے یا نہیں ۔۔۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ کہا درد ہے اور کہا نہیں ۔۔۔ جب معائنہ ختم ہوا تو ڈاکٹر نے اچانک میرے جسم کے پچھلے حسے پر زور سے ہاتھ مارا۔۔۔ میں نے ایسے معائنے کا حصہ ہی سمجھا لیکن یہ میرے لیے حیران کن تھا اس نے پھر بتایا کہ اب کوئی درد نہیں ہوگی۔۔۔ میں بہت پریشان اور گنگ ہو کر رہی گئی۔۔۔ میرے پشت پر ہاتھ مارنے کے بعد ڈاکٹر روم سے نکل گیا۔۔ میں نے اپنی شلوار اوپر کرتے ہوئے نرس کی طرف دیکھا۔۔۔ اس نے اپنی نظریں نیچے کرلیں لیکن اسکے لہجے سے مجھے اسکا جواب مل گیا۔۔

کہ وہ اس واقعہ پر شرمندہ ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتی میں روم سے نکل کر ڈاکٹر کی دفتر میں پہنچی جہاں میری ماں میرا انتظار کر رہی تھی کہ پتہ چل سکے ڈاکٹر کا کیا کہنا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اس نے میرے طرف دیکھتے ہوئے پلکیں تک نہیں جھپکیں اورمیں نے نظریں نیچے کرلیں۔۔۔ ماں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ درد کی پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ ڈاکٹرنے کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے نہ ہی اس کے لیے میڈیکیشن کی ضرورت ہے بس آپ اس درد کو نظر انداز کرلیں۔۔یہی کافی ہوگا ہسپتال سے نکل کر گھرجاتے ہوئے وہ لمحہ بار بار میرے ذہن میں آتا رہا۔۔ میرا چہرہ بجھ گیاتھا اور ماں یوں پوچھ رہی تھیں کہ آخر کیا جو تم بلکل خاموش ہوگئی ہو۔۔۔ تب میں نے اس واقعہ کو ہمیشہ کیلئے اپنی دماغ میں دفن کرنےکا فیصلہ کرلیا۔۔مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتامیں اسےجھٹک دیتی۔۔میں پوری طور پر نہانا چاہتی تھی کیوں کے مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں پلید ہوچکی ہوں۔۔۔ اپنے آپ سے مجھے نفرت محسوس ہورہی تھی نفرت کا لفظ بھی میرے احساسات کو بیان کرنے کیلئے چھوٹا محسوس ہورہا تھا۔۔۔ میں اس عمل کو کسی بھی طرح معمولی قرارنہیں دے سکتی تھی۔

میں کسی طرح اس شخص کوبے گناہ قرار دینے کی ہمت کر پارہی تھی اور نہ کوئی وجہ ڈھونڈ پارہی تھی۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ اسے ایک عام سے بات سمجھ کر بھول جاؤں یا یہ سمجھ لوں کے اس نے مجھے ایک چھوٹی بچی سمجھ کر مزاق کی طور پر ایسا کیاہے یا پھر شاید یہ اس کا اپنا انداز تھا بات چاہیے جو بھی ہو،کسی بھی ڈاکٹر کے لیےکسی حالت میں یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ وہ اس طرح اپنے مریض کو ہاتھ لگائے۔۔۔ نہ ہی یہ طبعی معائنہ کا حصہ تھا کولہے کو چھونا جسم کے کسی اور حصے کو چھونے سےبہت مختلف ہے۔ یہ ایک معمولی یا قابل فراموش حرکت نہیں ہےخاص طور پر ایک مرد ڈاکٹر کے لیےایک خاتون مریظہ کو اس طرح چھونا تو بلکل ہی نا مناسب ہے۔۔۔کسی کے جسم کے احساس حصوں کوچھوناجنسی حملے کےزمر ے آتاہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کے ایک چھوٹے سے واقعہ کو میں اتنا بڑا بتنگڑ کیوں بنانا چاہتی ہوں۔۔۔ اب میں اس کو دوسرے الفاظ میں بیان کرتی ہوں کہ ایک بڑا سرجن کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں بیٹھ کر کسی لڑکی کی پشت کو دوران معائنہ چھو لیتا ہے۔۔۔ کیا اس کی یہ حرکت آپ کو بے چیں کرتی ہے؟ میں اس بارے میں کچھ لکھنا نہیں چاہتی تھی۔

لیکن میرے آس پاس کے عقلمند اور سمجھ رکھنے والے دوستوں نے مجھے لکھنے کا مشورہ دیا۔۔۔ کیا میرے لیے یہ مناسب تھاکہ میں واپس ہسپتال جاکراس ڈاکٹر سے شکایت کرتی؟ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کےمیرے الفاظ اس شخص پر اثر چھوڑیں گےیا بے وقعت ثابت ہوں گے کیا مجھے اس کے پاس جانا چاہیے تھا؟ اگر وہ ایسا کچھ ہونے کا سرے سے انکار کردیتاتو میں کیا کہتی؟ اگر اس کے لیےیہ حرکت اس قدر غیر معمولی ہوتی کہ وہ مجھے پہچان ہی نا پاتا تو کیا ہوتا؟ یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔۔۔ جو سوال میں نے اس وقت اور آج تک اپنے آپ سے پوچھاہےوہ یہ ہے کہ میں اس چیز کو کیا سمجھوں؟ کیا اس شخص کے معافی مانگنے سے میری الجھن ختم ہوجائے گی؟ نہیں مجھے کسی قسم کی تلافی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ آپ ان کے حرکات کی تو جیہہ ڈھونڈنا چھوڑدیں ایسا کوئی ایسا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈیں جس سے آپ کو ایسا لگنے لگےکہ آپ نے اس شخص کو آپ پر اس عمل پر اکسایا ہے۔۔۔ خاموش رہنا کبھی بھی اس بات کی علامت نہیں کہ آپ کے ساتھ دوبارہ اس طرح کے رویہ نہیں اپنا یا جائے گا میں نے میڈیا میں آنے کا اس لیے فیصلہ کیاکہ اگر ایک شخص بھی یہ پڑھ لے۔

اور اپنی کہانی شیئر کرنے پر رضا مند ہو جائے تو میرے الفاظ اور سوچ کی قیمت ادا ہوجائے گی میں ایسے لڑکی نہیں ہوں جو چھوٹے مسائل پر شکایت کرتی ہوں یا اتنے بڑے معاملے کو معمولی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر لے یہ ایک سنجدہ معاملہ ہے۔۔۔ہسپتال اور کلینک ایسی جگہیں ہوتی ہے جہاں کپڑے اتارنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ اپنی مرضی سے ننگے ہوتے ہیں اور نہ ہی یہاں کسی کو یہ اجازت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ غیر مناسب طریقے سے آپ کے جسم کو چھوئےاس لیے یہ ڈاکٹر حضرات اور انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی مریض کو آرام دہ سہولت فراہم کرے۔۔۔ میں اس اندازے میں نہیں پڑھنا چاہتی کہ اس ڈاکٹر نے دوسرے مریضوں کے ساتھ کیا کیا ہو گا کیونکہ ممکن ہے اس نےکبھی ایسا کسی اور کے ساتھ نہ کیا ہو۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔۔۔ایسے واقعات ایک کلچر، معاشرے یا نسل تک محدود نہیں ہیں۔۔۔ یہ انسان کی فطرت کی ایک کنڈیشن ہے۔۔۔ کسی کی جسم میں درد ہو سکتی ہے لیکن ایسے واقعات کا خیال ہو کسی کے دل میں ہر وقت نہیں ہوتا۔


Post a Comment

0 Comments